عید قرباں ٠٠٠٠٠٠٠ تاریخ کے آٸینہ میں

عید قرباں ٠٠٠٠٠٠٠ تاریخ کے آٸینہ میں



 Writer - Mufti afsar ali qasmi


قارٸین کرام : اللہ تبارک وتعالٰی نے مسلمانوں کی خوشی ومسرت کاسامان ماہ ذی الحجہ میں رکھا ہے کیونکہ اسی ماہ مبارک کی دسویں تاریخ کو عید الأضحٰی یعنی قربانی کا دن ہے جس میں مسلمان جو جانور ظاہری یا باطنی خباثت سے پاک ہے اسکاخون بہاکر سیدنا حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہماالسلام کی بے مثال قربانی کی یادگار مناتے اورخداوند قدوس کےیہاں تقرب حاصل کرتے ہیں اس لٸے کہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی خوشی ومسرت کے لٸے دودن عطاکٸے ہیں، ایک عید الفطر جو روزہ، تراویح، اعتکاف، شب قدر جیسی عظیم اور اہم عبادتوں کےعوض اوربدلہ میں عطا کی ہے ۔لیکن عید الأضحٰی دوجلیل القدر عظیم المرتبت پیغمبروں کی قربانی کی یادگار کے طور پر دی گٸی ہے چونکہ اللہ تبارک وتعالٰی کو انکی یہ ادا اتنی پسند آٸی کہ اسے اول ترین عبادت قرار دیکر اس کااحترام مسلمانوں پر واجب کردیا لیکن یاد رہے کہ قربانی پرانی قوموں کادستور رہاہے اور ہر مذہب وملت اور قوم ومعاشرہ میں قربانی دی جاتی رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ الگ الگ طریقے اور دیوی دیوتاٶں کےنام قربانی کا سلسلہ رہا ہے لیکن اس روٸے زمین پر سب پہلے جنہونے قربانی پیش کی ہے وہ صفحہ ہستی کے پہلے انسان سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے دو لخت جگر ہابیل اور قابیل کی قربانی ہے۔جس کانقشہ قرآن کریم نے اس انداز میں کھینچا ہے۔ { إذ قربا قرّباناً فتقبل من أحدھما ولم یتقبل من الآخر الآیہ}ترجمہ (وہ وقت یاد کرنیکے قابل ہے جب دونوں نے اللہ کے نام کی ایک ایک نیاز پیش کی اور ان میں سے ایک کی تو مقبول ہوگٸی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوٸی ) اس قربانی کے پیش کرنے کا واقعہ جوصحیح اورقوی سندوں سے منقول ہے اور ابن کثیر ؒ نے اس کو علما ٕسلف وخلف کا متفقہ قول قرار دیا ہے یہ ہے کہ جب سیدنا آدم وحوا علیہما السلام اس دنیا میں تشریف لاٸے اور توالد وتناسل کاسلسلہ شروع ہوا تو ہرایک حمل سے ان کے دوبچے توام (جڑواں)پیدا ہوٸے ،ایک لڑکا اور دوسری لڑکی اس وقت آدم علیہ السلام کی اولاد میں بجز بہن بھاٸیوں کے کوٸی اور نہ تھا،اور بھاٸی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تو اللہ تعالٰی اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم علیہ السلام میں یہ خصوصی حکم جاری فرمادیاتھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہووہ تو آپس میں حقیقی بہن بھاٸی سمجھے جاٸیں ، اور ان کے درمیان نکاح حرام قرا پاٸے ،لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کیلٸے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی ،بلکہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج ومناکحت جاٸز ہوگا ۔لیکن ہوا یہ کہ پہلےلڑکے قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوٸی وہ حسین وجمیل تھی اور دوسرے لڑکے ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی بد شکل تھی ،جب نکاح کاوقت آیا توضابطہ کے مطابق ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بد شکل لڑکی قابیل کے حصہ میں آٸی،اس پرقابیل ناراض ہوکر ہابیل کادشمن بن گیا ،اور اس پر اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوٸی ہے وہی میرے نکاح میں دی جاٸے ، حضرت آدم علیہ السلام نے شرعی قاعدہ کے مطابق اس کو قبول نہ فرمایا اور ہابیل وقابیل کے درمیان پیدا شدہ اختلاف کو ختم کرنے کیلٸے یہ صورت تجویز فرماٸی کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کی لٸے پیش کرو جس کی قربانی قبول ہوجاٸےگی یہ لڑکی اس کو دی جاٸیگی ، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو یقین تھاکہ قربانی اسی کی قبول ہوگی جو حق پر ہے ۔اس زمانہ میں قربانی قبول ہونے کی واضح اور کھلی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور قربانی کوکھاجاتی تھی،اور جس قربانی کو آگ نہ کھاٸے تو اس کے نامقبول ہونے کی علامت ہوتی تھی ۔اب صورت یہ پیش آٸی کہ ہابیل کے پاس بھیڑ ،بکریاں تھیں،اور قابیل کاشتکار آدمی تھا لہٰذا ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی پیش کی اور قابیل کچھ غلہ،گندم وغیرہ قربانی کیلٸے پیش کیا ،اور ہوا یہ کہ حسب دستور آسمان سے آگ آٸی ، اور ہابیل کی قربانی کو کھاگٸی اور قابیل کی قربانی جوں کی توں رہ گٸی اس پر قابیل کو اپنی ناکامی کے رسواٸی کا غم وغصہ اور بڑھ گیا ۔یہ تھی دنیاٸے انسانیت کی سب سے پہلی قربانی البتہ قربانی مختلف معاشرہ اور مذہب وسماج میں انتہاٸی مکروہ اور ناقابل بیان طریقے سے مناٸی جاتی رہی ہے ، کہیں تو معصوم بچوں کاخون بہاکر کہیں جواں سال دوشیزاٶں کو معبودان باطلہ کے نام بھینٹ چڑھا کر وغیرہ وغیرہ چناچہ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے واقعہ کا پس منظر معرض وجود میں آتا ہے وہ یہ کہ قریش اپنے بتوں کوبہت مانتے تھے کعبہ کی تولیت انہیں کے سپرد تھی جو اس وقت بتوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا جس میں تقریبا تین سو ساٹھ (٣٦٠) بت رکھے ہوٸے تھے کسی کانام لات تھا کسی کاعزّٰی وغیرہ غیرہ بتوں میں ایک سب سے بڑا بت ہبل تھا تمام عرب ہبل سے لڑکے پیدا ہونے کی دعاٸیں مانگا کرتے تھے نذریں چڑھاٸی جاتی تھی اور دستور بن گیا تھاکہ ہرشخص ٩/لڑکوں کے بعد دسویں لڑکے کو ہبل کے نام بھینٹ چڑھایاکرتا تھا متولی کعبہ حضرت عبد المطلب کے یہاں دسواں بیٹاپیدا ہوا جس کانام عبد اللہ رکھاگیا ضابطہ کے مطابق اس کے جوان ہونے کاانتظارکیاجانے لگاتاکہ اس کی نذر پوری کی جاٸے ۔ادھر عبداللہ کے اخلاق وعادات اور حسن اخلاق نے لوگوں کے دل کو اپنی طرف متوجہ کرلٸے تھے اور خداٸے تعالٰی نے فن شاعری کی بے مثال مہارت عطاکی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف بہت زیادہ تھی اور والد محترم حضرت عبد المطلب بھی اپنےہونہار فرزند کے انداز واطوار سے بہت خوش تھےمگر جب جب عرب کے دستور کاخیال آتا تو بدن کانپ جاتا دل انکار کرتا مگر رسم ورواج کے بندھنوں کے سامنے مجبور تھے۔ حضرت عبد اللہ کی قربانی کاوقت جوں جوں قریب آتا گیا عبد المطلب کی نیند حرام ہوتی چلی گٸی ،حسن اتفاق ایک کاہنہ نے مشورہ دیااورکہا کہ بیٹے کے بدلے اونٹ کی قربانی دے دو سب کو اس عورت کی راٸے پسند آٸی چنانچہ نذر پوری کرنے کیلٸے ایک طرف حضرت عبد اللہ کو رکھا گیا اور دورسری طرف دس اونٹ،اب فال کے تیر چلاٸے گٸے سوٸے اتفاق کہ قرعہ حضرت عبد اللہ کے نام پر پڑا ۔لوگوں کو بڑا افسوس ہواچنانچہ دوبارہ تد بیر کی گٸی اور اونٹوں کی تعداد دوگنی کرکے پھر قرعہ ڈالاگیا اس مرتبہ بھی قرعہ حضرت عبد اللہ کےنام پر ہی نکل آیا پھر تیسری مرتبہ تدبیر کی گٸی اور اونٹوں کی تعداد دوگنی کرکےقرعہ ڈالاگیا مگر کامیابی اس بار بھی نہیں ملی چنانچہ تاریخ میں لکھاہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور دسویں مرتبہ جاکر قرعہ اونٹوں کے نام نکلا لوگ خوشی کے مارے جھوم اٹھے اب حضرت عبداللہ کے بدلے اونٹ کو قربان کیاگیا ۔اس طرح کے واقعات تاریخ میں بہت ملتے ہیں لیکن سیدنا حضرت ابراہیم کی قربانی کو بارگاہ صمدی میں جو مقبولیت عطاہوٸی وہ کسی اور قربانی کوکہاں ؟؟ اللہ پاک ہم سب کو اخلاص کے ساتھ قربانی کرکے سنت ابراہیمی کوزندہ رکھنے کی توفیق عطافرماٸے آمین ۔


 


Comments

Popular posts from this blog

नगर पालिका के अधिशासी अधिकारी नियमों को उड़ा रहे हैं गाड़ी पर लिखा भारत सरकार

समस्त देशवासियों ,विज्ञापन दाताओं, सुधी पाठकों को स्वतंत्रता दिवस की हार्दिक शुभकामनाएं

विपनेश चौधरी को मेघालय के राज्यपाल ने राजस्थान में किया सम्मानित